Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر17

چئیر سے بندھے وہ اونگھنے لگی تھی تبھی کھٹکے کی آواز پر چونک کر آنکھیں کھول گئی،گردن گھوما کر دیکھا تو گیٹ سے تیمور اندر داخل ہورہا تھا،اسکے ہاتھ میں ٹرے دیکھ نتاشہ کو تھوڑی حیرت ہوئی، ڈرو نہیں۔۔۔سر یہاں نہیں ہیں۔۔۔ مسکراتے ہوئے بول کر تیمور نے ٹرے زمین پر رکھی،اس میں کچھ کھانا اور ایک گلاس پانی رکھا تھا، یہ۔۔۔؟ اس نے ٹرے کی طرف دیکھ کر پوچھا، جب سے مار ہی سے پیٹ بھر رہی ہو۔۔۔اب کچھ کھالو۔۔۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولتے ساتھ مسکراکر اسے دیکھا تھا پر فوراً ہی اسے احساس ہوا کچھ غلط بولنے کا،نتاشہ کی سُوجی آنکھیں تیزی سے گیلی ہوئی تھیں، آ۔۔۔سوری۔۔۔ دھیمی آواز میں بول کر تیمور نے اسکے ہاتھوں پر سے رسیاں کھولنی شروع کیں، وہ کہاں ہیں۔۔؟ اسکے کھانا کھانے کے دوران تیمور خاموشی سے موبائل یوز کررہا تھا تبھی نتاشہ کے اچانک پوچھنے پر چونکا کون؟ اس نے ناسمجھی میں پوچھا جس پر نتاشہ چپ ہوکر سر جھکائے کھانے لگی،تیمور کو بےساختہ اپنے بےوقوفانہ سوال پر غصہ آیا،ماتھے پر ہلکی سی چپت لگا کر وہ بولا کسی کام سے گئے ہیں۔۔۔بتاکر جاتے نہیں اسی لیے مجھے معلوم نہیں۔۔۔ مذاقاً لہجے میں کہہ کر تیمور نیچے ماربل پر بیٹھی نتاشہ کی طرف آیا کیونکہ کھانا وہ ختم کرچکی تھی اور اب پانی پی رہی تھی،ٹرے اٹھاکر وہ باہر نکلا تو نتاشہ نے ایک نظر اپنے دونوں ہاتھوں کی کلائی کو دیکھا جو چوبیس گھنٹے سختی سے بندھے رہنے کے باعث بلکل سرخ ہورہی تھیں،پیٹ بھرنے پر نقاہت تھوڑی کم ہوئی تو اسے شدت سے اپنا جسم ٹوٹتا محسوس ہوا،ہما نے جس بری طرح اسے مارا تھا درد اب تک اسے ہوتا تھا اوپر سے پیر کی جلن،بھیگی آنکھیں جھک کر نازک پیروں پر گئیں،جن میں جگہ جگہ چھالے پڑے تھے،اسے شدت سے ادیان کے ساتھ گزارے وہ لمحے یاد آئے جب وہ اسکی ہر طرح سے کئیر کرتا اسکے پریشان ہونے پر کچھ بھی کر کے اسکا موڈ ٹھیک کرتا،کتنے خوش تو تھے وہ لوگ،پھر اچانک کیوں اس نے ایسا کیا،آنسو ٹوٹ کر تیزی سے گالوں پر پھسلے تھے جنہیں اس نے بےدردی سے رگڑا،ٹھنڈے یخ ماربل پر بیٹھی اپنے خیالوں میں اتنی گم اسے ہوش نہیں تھا کہ پیچھے سے کوئی اندر داخل ہوا ہے،کچھ دیر بعد بازو پر نرمی سے رینگتے ہوئے ہاتھ کا لمس محسوس کر کے نتاشہ نے جھٹکے سے گردن موڑی،مقابل کو دیکھتے ہی وہ آنکھیں پھیلائے تھوڑا پیچھے سرکی،دل بری طرح ڈرا تھا اسے دیکھ کر،زبرین گھٹنوں کے بل نیچے اسکے قریب بیٹھا اسے رسیوں سے آزاد ستائشی نظروں سے دیکھ رہا تھا،نتاشہ کے پیچھے سرکنے پر وہ دو بار تالیاں بجاتے ہوئے کھڑا ہوا، واؤ۔۔۔اپنی بےچاری صورت دکھا کر اب اور کتنوں کی ہمدردیاں سمیٹنی رہ گئی ہے ڈارلنگ۔۔۔ حظ اٹھاتی نظروں سے اسے دیکھ کر بولتا وہ نتاشہ کے گرد چکر لگانے لگا،نتاشہ نے دکھ سے اس سنگ دل کو دیکھا جسکے لہجے میں اسکی یہ حالت کر کے بھی زرا پشیمانی نہیں تھی اور ہوتی بھی کیوں،اسکی نظر میں تو جو وہ کررہا تھا بلکل ٹھیک تھا، وہ واپس سر جھکائے رونے لگی تھی پر اچانک زبرین نے اسکا بازو اپنی مٹھیوں میں جکڑے اسے جھٹکے سے کھڑا کیا،اسکے کچھ بولنے سے پہلے ہی زبرین ٹورچر سیل میں لگے کیمروں پر ایک اچٹتی نظر ڈالتا نتاشہ کو کھینچ کر وہاں سے لے گیا،اسکے کھینچنے پر نتاشہ کی چیخ بلند ہوئی تھی،جلے ہوئے پیروں سے چلنا محال تھا پر وہ اپنی جارحانہ گرفت میں اسے لیے ٹورچر سیل سے نکلتا خفیہ کمرے میں جانے لگا،بیچ میں ہال نما لاؤنج سے گزرتے ہوئے زبرین نے گردن موڑ کر ایک سرد نظر باہر سے آتے تیمور پر ڈالی جو شاید کال پر کسی سے بات کررہا تھا،زبرین کو دیکھتے ہی اسکے ہاتھ سے موبائل گرتے گرتے بچا تھا،اسے نتاشہ کو زبردستی خفیہ کمرے میں لے جاتا دیکھ تیمور نے تھوک نگلا پھر اوپر دیکھ کر اپنی جان بخشی کی دعائیں کرتا کمپیوٹر روم کی طرف بڑھا، خفیہ کمرے میں لا کر اس نے نتاشہ کو جھٹکے سے چھوڑا،وہ نیچے گرکر اپنا پیر سختی سے پکڑ گئی،کوئی دوائی نہ لگانے سے تکلیف شدت پکڑنے لگی تھی برداشت نہ ہونے پر وہ دبی آواز میں رونے لگی،زبرین کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیلی تھی اسکے رونے پر،آنکھیں گھوماتے ہوئے وہ اسکے قریب آکر جھکا،نتاشہ اسکی آنکھوں میں وہی درندگی دیکھ روتے ہوئے پیچھے سرکنے لگی،اب زبرین کی پیشانی میں شکن پڑے تھے اسکے پیچھے ہونے سے،اس نے نتاشہ کی کلائی پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنے حد درجہ نزدیک کیا، چچچہ۔۔۔۔سو سیڈ تمہاری یہ چال مجھ پر نہیں چلنے والی ڈارلنگ۔۔۔ نتاشہ کے رونے پر چوٹ کرتا وہ اسکے بھیگے گال پر بہتے آنسو اپنے انگوٹھے سے رگڑگیا،نتاشہ سسکی تھی اسکی عنایت پر، آپ ایسے کیوں ہوگئے ادیان۔۔۔ وہ دھیمے انداز میں ہنسنے لگا تھا اسکے تڑپنے پر لیکن اچانک بھرائی ہوئی آواز میں بولتی وہ زبرین کو ساکت کرگئی،ساکت وہ اسکے سوال پر نہیں بلکہ لہجے پر ہوا تھا نہ کوئی شکوہ تھا نہ ملال،اسکے لہجے میں بےشمار دکھ کا انثر تھا،زبرین کے چہرے پر ٹہری طنزیہ مسکراہٹ سمٹی تھی جبکہ وہ خود اب حیرت سے اس لڑکی کو دیکھنے لگا،اسکا دماغ الجھتا تھا اپنے لیے اس لڑکی کی بلاجواز محبت دیکھ کر،اس نے بغور اسکی سوجی سرخ آنکھوں میں دیکھا،کس قدر تڑپ تھی ان ہیزل رنگ آنکھوں میں اگر اسکی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو ضرور رشک کرتا اپنی قسمت پر،زبرین کی ٹھنڈی سرد آنکھوں میں ہلکی سی نرمی کا تاثر دیکھ کر نتاشہ ہمت کر کے اسکے قریب ہوئی پھر آہستگی سے اپنا دُکھتا سر اسکے سینے پر رکھ کر آنکھیں موند گئی،زبرین اسے دھکا دے کر دور کرنا چاہتا تھا مگر پہلی بار اپنے فیصلے کو روندتا وہ خود ہی اسکے گرد ایک بازو حائل کرگیا،جیسے کسی اپنائیت بھرے لمس کا خود بھی پیاسا ہو،زبرین کا بازو اپنے گرد محسوس کر کے نتاشہ اور اس میں بھنچی تھی ساتھ ہی اسکی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں دبوچے پھوٹ پھوٹ کر رودی، ادیان۔۔۔مر رہی ہوں میں۔۔۔مت کریں اس طرح اور ظلم مت کریں۔۔۔محبت کرتی ہوں آپ سے۔۔۔۔میری محبت کا مذاق نہ بنائیں۔۔۔۔ ہچکیوں سمیت روتی وہ اس سے فریاد کررہی تھی،لہجہ ہر شکوہ شکایت سے عاری تھا،عاجزی سے بھرپور وہ لہجہ زبرین کے سینے میں اسی پتھر پر پڑتی دراڑ بڑھا کر وہ پتھر کھوکھلا کرنے لگا تھا،آخر کس مٹی کی بنی تھی وہ لڑکی جو اسکے اتنا ظلم کرنے پر بھی اسی کے گلے لگے فریاد کررہی تھی،کیوں وہ اسے اپنے خول سے نکالنے کے درپے تھی،اس سے پہلے وہ جذبات کے سمندر میں بہتا،اپنے اوپر پھر وہی سرد خول چڑھائے نتاشہ کو خود سے دور کرگیا،پر اس بار انداز تھوڑا نرم تھا، ادیان رکیں۔۔۔ اسے اٹھ کر کمرے سے نکلتا دیکھ نتاشہ نے تڑپ کر اسے پکارا،جیسے اسکی دوری گوارا نہ ہو،اور ہوتی بھی کیوں آخر اتنے دنوں بعد جو اسکا نرم لمس محسوس کیا تھا پر وہ بھی صرف چند پل کے لیے،اسکی پکار کو اگنور کرتا وہ روم سے نکلا،نتاشہ اسے جاتا دیکھ بمشکل پیر پر کھڑی ہوتی اسکی طرف آنے لگی،اس سے پہلے وہ روم سے باہر آتی زبرین نے اسکے منہ پر گیٹ بند کیا تھا،چہرے پر کچھ دیر پہلے والی سوگواریت اب غائب ہوچکی تھی،وہ حیران ہوا تھا اپنے عمل پر،آئبرو بھینچے اس نے اپنے اس بازو کو دیکھا جسے اس نے نتاشہ کے گرد حائل کیا تھا،وہ تو اسے تکلیف دینے یہاں لایا تھا پھر کیسے اس سے ناچاہتے ہوئے بھی ہمدردی جتاگیا تھا،اپنی اس حرکت پر جی بھر کر غصہ آیا اسے،ایک نظر گیٹ کو دیکھ وہ وہاں سے چل دیا،دوسری طرف نتاشہ اسکے گیٹ بند کرنے پر وہی پر نیچے بیٹھی بآواز رونے لگی تھی،اسکی اذیت بھری آواز ایک بار پھر پورے کمرے میں گونجنے لگی تھی، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہما آج ازہا کو لے کر گھر آئی تھی،اسکی ماں تو اتنے مہینوں بعد بیٹی کو دیکھتے ہی تڑپ کر اسکے گلے لگ گئی تھیں،البتہ باپ نے اپنا دل اسکی طرف سے بلکل پھیر لیا تھا،انکی بےرخی پر شرمندگی سے ازہا بہت روئی تھی،اپنے کیے پر اس نے معافی بھی مانگی پر اسکے باپ کا ایک ہی مطالبہ تھا،انہوں نے ہما کو صاف کہہ دیا تھا کہ ازہا کے لیے جلد سے جلد کوئی بھی لڑکا ڈھونڈ کر اسکی شادی کرنے کا،کیونکہ بقول انکے وہ ایک ایسی لڑکی کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتے تھے،جسے ماں باپ کی عزت کا پاس نہ ہو،انکی بات پر ہما کو زبرین سے آفس میں کی گئی بات یاد آئی تھی جسکے بارے میں اس نے ازہا سے ہٹ کر اپنے ماں باپ سے بات کی،اسکی ماں تو اتنی جلدی اسکی شادی پر تیار نہیں تھی پر ازہا کے باپ کے ڈر سے وہ خاموش رہیں،اور ابھی ہما اسی سلسلے میں ازہا سے بات کررہی تھی، آپی آپ پاگل ہوگئی ہیں۔۔۔۔ابھی دو ہی دن ہوئے ہیں مجھے گھر آئے۔۔۔میں اس فیز سے نکلی بھی نہیں کہ آپ یہ بات کہہ رہی ہیں مجھ سے۔۔۔۔ وہ تکلیف دہ لہجے میں گویا ہوئی تھی، دیکھو ازہا۔۔۔۔میں جانتی ہوں تم اتنی جلدی یہ سب قبول نہیں کر پاؤگی پر بلیوو می۔۔۔زین ایک اچھا انسان ہے وہ پرفیکٹ ہے تمہارے لیے۔۔۔ ہما نے پریشانی سے اسے سمجھانا چاہا پر ازہا کے مسلسل انکار پر وہ تنگ آکر پھر گویا ہوئی تم انکار کر کے جتانا کیا چاہتی ہو ہم پر۔۔۔۔کیا میں انجان ہو یا بےوقوف کہ سیف ہاؤس میں تمہاری حرکتیں نہ دیکھی ہو میں نے۔۔۔ اس بار انکے غصے بھرے لہجے پر ازہا نے حیرت سے انہیں دیکھا،یہ وہ کیا کہہ رہی تھیں،اسکی چپ پر انہوں نے آگے بولا بتاؤ مجھے۔۔۔اگر نہیں پسند تمہیں وہ۔۔۔تو کیوں سیف ہاؤس میں اسے اتنا گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ایک بار دھوکہ کھا کر بھی سکون نہیں ملا تھا تمہیں جو پھر یہ سب۔۔۔ آپی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔۔ ازہا کی بےیقین آواز پر ہما اپنی بات روک کر غصے میں اسے گھوری تھیں،جبکہ ازہا اب تک بےیقین نظروں سے اپنی بہن کو دیکھ رہی تھی، میرا اسے دیکھنا۔۔۔آپ نے کن نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔۔آپکو معلوم بھی ہے میں کیوں اسے یوں دیکھتی تھی۔۔۔۔کیونکہ لوگوں کو مضبوط دکھنے والا وہ مرد مجھے اندر سے کھوکھلا دکھتا تھا۔۔۔جیسے اپنے اندر ایک درد کا طوفان لیے زندگی گزار رہا ہو۔۔۔۔مجھے عجیب لگتا ہے وہ۔۔۔آخر کیا تکلیف ہے اسے جو یوں خود میں چھپاتا پھرتا ہے۔۔۔۔پر یہ سب جاننے کا میرا کوئی حق نہیں تھا اسی لیے چپ تھی۔۔۔لیکن پھر بھی جب کہیں وہ دکھتا تو اسے دیکھ میں یہی باتیں حیرت سے سوچتی۔۔۔۔آپی ایک بار دھوکہ کھاکر عقل آچکی ہے مجھ میں۔۔۔کیوں میں اب ایسی حرکت کرونگی۔۔۔ وہ دکھ سے بولتی بیڈ پر بیٹھی بھیگی آنکھیں جھکاگئی،ہما کو بےساختہ ندامت ہوئی اپنے لہجے پر،بات کیا تھی اور وہ خود کیا سمجھیں تھی،ازہا کا جھکا سر دیکھ اسنے کچھ بولنا چاہا پر بھر ارادہ بدل کر وہ روم سے ہی نکل گئی، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو دن ہونے کو تھے پر وہ اس دن کے بعد سے اب تک نہیں آیا تھا،نہ ہی اس نے کسی کو یہاں بھیجا تھا نتاشہ کو ٹورچر سیل میں لے جانے کے لیے،دیوار سے ٹیک لگائے وہ سوجی سرخ آنکھوں سے زمین کو خاموشی سے گھور رہی تھی تبھی ناب گھوما کر کسی نگ گیٹ کھولا تھا،آہستے سے گردن موڑ کر اس نے دیکھا دروازے پر ایک لیڈی افسر کھڑی تھی۔ اے لڑکی اٹھو۔۔۔ نتاشہ کے پاس آتے ہوئے اس لیڈی افسر نے بدلحاظی سے کہتے ساتھ اسکا بازو پکڑا تھا،نتاشہ جبراً اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر خاموشی سے اسکے ساتھ چل دی،پر اس عورت کو باہر کی طرف جاتا دیکھ وہ کچھ حیران ہوئی،عمارت کے پورچ پر آکر وہ افسر خود اندر چلی گئی،نتاشہ حیرت سے اسکی پشت دیکھنے لگی، مبارک ہو آزادی۔۔۔ڈارلنگ۔۔۔ کان میں زبرین کی آواز پڑتے ہی وہ جھٹکے سے گردن موڑ کر اسے دیکھی،اسکے الفاظ نتاشہ کو بےیقین کرگئے، اپنے باپ کے پاس جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔۔ تمسخر اڑاتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے زبرین نے کہا،نتاشہ اسکی بات پر خوش ہونے کے بجائے دکھ سے اسے دیکھنے لگی، ابھی زبرین اسکا بازو پکڑتا کہ وہ دو قدم پیچھے ہٹی، مجھے نہیں جانا۔۔۔ بھرائی آواز میں بولتی وہ زبرین کو حیران کرگئی،اسکی حیرت سے بھر پور نظروں کا مفہوم سمجھ کر نتاشہ پھر بولی آپکے ساتھ رہنا ہے ادیان۔۔۔مجھے چھوڑیں گے تو نہیں نا۔۔۔ وہ کسی ڈر کے تحت اس سے سوال کررہی تھی جبکہ زبرین اسکی بات پر پلکیں جھپکائے اپنا رخ موڑ گیا،وہ کیوں اتنی اذیت کے بعد بھی اسکے ساتھ رہنا چاہتی تھی،کیوں کر رہی تھی وہ یہ سب،اب تو آزاد بھی ہوچکی تھی پھر اس ڈرامے کا مطلب،زبرین سوچتے ہوئے الجھا،پھر اپنے خیالات جھٹکتا وہ پلٹا اور نتاشہ کو بازو سے پکڑ کر پورچ میں کھڑی کار میں بیٹھانے لگا، نہیں۔۔۔ادیان۔۔۔ایسا نہیں کریں۔۔۔مجھے بتائیں پہلے۔۔۔آپ مجھے نہیں چھوڑیں گے نا۔۔۔۔ادیان۔۔ وہ اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کیے روتے ہوئے بولی پر اسکی بات ان سنی کرتے زبرین نے زبردستی اسے کار میں بیٹھایا،نتاشہ کے بیٹھے ہی کار سٹارٹ ہوئی تھی،کھڑکی سے اسے دیکھتی وہ بری طرح رورہی تھی،پر مقابل اپنی سفاکیت بھرپور طریقے سے دکھا رہا تھا، "جس کے لیے آنکھوں کو لال کر ڈالا، اسی نے چھوڑ کر مجھ کو کمال کر ڈالا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ازہا کی طرف سے ہاں میں جواب آنے پر زین اپنا غصہ بمشکل ضبط کیا تھا،اسے بے حد بری لگی وہ لڑکی جسکی وجہ سے زبرین کو ناجانے کیوں اسکی شادی کی سوجی تھی،اصل جھٹکا تو زین کو تب لگا جب زبرین نے اسے کورٹ میں بلایا تھا،وہاں آنے پر اس نے جو دیکھا بےساختہ اپنی پیشانی مسلنے پر مجبور ہوگیا،،ازہا کو ہلکے کامدار سوٹ میں لائٹ سے میک میں وہاں لایا گیا تھا،ازہا کی فیملی سے صرف اسکی بہن اور ماں کورٹ میں پہلے ہی موجود تھیں،زبرین کو وہی پر ایک چئیر پہ پرسکون بیٹھے دیکھ زین کا خون جلا تھا،اس نے انکار کرنا چاہا پر زبرین کی سرد نظروں کے آگے بےبس ہوتا وہی کیا جو وہ چاہتا تھا،کورٹ میں ہی انکا نکاح کرائے جب زبرین نے ازہا کو زین کے ساتھ ہی بھیجنے کا مطالبہ کیا تو اس بار خود ازہا نے ہما کو انکار کیا،پہلے ہی وہ ان سب سے بری طرح ڈسٹرب تھی،بجا کہ ابھی اس آدمی کے ساتھ جانا،پر ہما کا جواب سن کر وہ سکتے کی حالت میں آگئی، سوری ازہا میری جان۔۔۔پر بابا نے بھی یہی بات کہی تھی۔۔۔ ہچکچاکر کہتی ہما کی بات سن کر ازہا عالمِ حیرت سے اپنی بہن کو دیکھنے لگی تھی،ہما نے اسکی آنکھوں میں بےپناہ دکھ ہلکورے لیتا دیکھ نگاہ چرائی تھی، زین کے ازہا کو کورٹ سے لے جانے کے بعد زبرین بھی وہاں سے نکلا تھا،ساعے راستے اس نے ازہا سے بات تو کیا ایک اچٹتی نگاہ بھی اس پر نہیں ڈالی تھی،دوسری طرف وہ کونسا اسکے نظرِ کرم کی منتظر تھی،الٹا اپنے ہی دکھ کی دنیا میں وہ پورے راستے بناآواز کے روتے آئی تھی،اپنے گھر کے پورچ پر کار روک کر زین تیزی سے کار سے نکلتا دھاڑ سے گیٹ بند کیے گھر میں داخل ہوا،ازہا اسکی اس حرکت پر ہی زین کے غصے کا اندازہ لگاگئی تھی،اپنی سلامتی کی دعا مانگتی وہ کار سے نکل کر خود بھی مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق گھر میں داخل ہوئی،یہ ایک چھوٹا پر کافی سوبر اور خوبصورت گھر تھا،ایک چھوٹا سا لاؤنج تین کمرے اور ایک کچن پر مبنی زین کا گھر ازہا خاموشی سے دیکھ رہی تھی،لاؤنج میں کھڑی وہ ایک نظر ہر طرف دیکھنے لگی،دوسرے والے کمرے کا گیٹ کھلا تھا یعنی کہ وہی اسکا کمرہ تھا،دل میں اسکے غصے کے ڈر کی وجہ سے ازہا نے اسکے کمرے میں جانے سے مکمل گریز کیا،اور سیدھا پہلے کمرے کا ناب گھماتے ہوئے اس میں داخل ہوئی، لائٹ اون کرنے پر اس نے دیکھا کمرہ کافی سوبر پر اچھا تھا،اسے حیرت ہوئی تھی گھر خالی دیکھ کر،دل میں سوال ابھرا کہ کیا وہ اکیلا رہتا تھا،اگر اکیلا رہتا تھا تو اس کمرے میں بیڈ الماری ڈریسنگ کا کیا کام،کیونکہ جہاں تک اسے اندازہ تھا کمرہ تو اسکا دوسرا تھا،ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی جب کھٹکے کی آواز پر وہ پلٹی،دروازے پر خشمگیں نگاہوں سے خود کو گھورتے زین کو دیکھ کر وہ بوکھلائی تھی،اسے دیکھ ازہا نے ایک نظر کمرے کو دیکھا، می۔۔میں۔۔۔اس۔۔کمرے میں۔۔۔رہ لونگی۔۔۔ اسے دیکھنے سے مکمل گریز کیے ازہا نے نگاہ جھکائے کہا یہ کمرہ میرا ہے۔۔۔ زین کی سخت آواز پر وہ جھٹکے سے سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی،تو کیا اسکا اندازہ غلط تھا،تو پھر وہ دوسرے کمرے میں کیا کرنے گیا تھا،دماغ نے فوراً الرٹ کیا تھا اسے، تو۔۔۔میں۔۔۔دو۔۔۔دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہوں۔۔۔ اپنی گھبراہٹ پر بمشکل قابو پاکر وہ بولتی جلدی سے اسکے برابر سے نکلنے لگی پر زین نے فوراً سے پہلے اسکی کلائی اپنی گرفت میں کی اور جھٹکے سے اسے واپس روم کے اندر کیا،ازہا کے جسم کا سارا خون سوکھ کر چہرے پر آیا تھا،آنکھیں پھیلائے وہ زین کو دیکھنے لگی،جو اسے گھورتا گیٹ دھاڑ کی آواز کے ساتھ بند کرکے اب آہستہ قدم اٹھاتا ہوا اسکے پاس آرہا تھا، یہی چاہتی تھی نا تم۔۔۔۔بہت شوق تھا مجھے دیکھنے کا۔۔۔اب دیکھو غور سے۔۔۔۔ اسکی حرکت پر چوٹ کرتا سختی سے کہتے ہوئے وہ قدم با قدم اسکے نزدیک آرہا تھا،جبکہ ازہا بری طرح دھڑکتے دل سمیت اپنے چھوٹے قدم پیچھے کرنے لگی،آنسو کب پلکوں کے باڑ توڑ کر نکلے اسے نہیں معلوم تھا،وہ تو بس گھبراتے ہوئے ہر لمحے خود کے نزدیک آتے زین کو دیکھ رہی تھی،جسکی تیز آنکھیں اسکے خوبصورت چہرے پر گڑی تھیں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments